0

ستائیسویں آئینی ترمیم — نظام کے استحکام یا سیاسی احتساب کی پیش بندی

میاں افتخار احمد
قوم کو مبارک ہو ستائیسویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہو گئی ہے، مگر اس منظوری کے ساتھ ہی یہ بحث شدت اختیار کر گئی ہے کہ کیا یہ ترمیم ملک میں ادارہ جاتی استحکام کے لیے کی گئی ہے یا کسی مخصوص سیاسی رہنما کو مستقبل میں نظام سے باہر رکھنے کی ایک حکمت عملی ہے۔ بظاہر اس ترمیم کا مقصد عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمنٹ کے درمیان طاقت کے توازن کو ازسرنو متعین کرنا ہے لیکن وقت، حالات اور سیاسی پس منظر اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ اس قانون سازی کے پیچھے صرف آئینی ضرورت نہیں بلکہ سیاسی مصلحتیں بھی کارفرما ہیں۔ اس وقت جب عمران خان متعدد مقدمات میں الجھے ہوئے ہیں، ان کی جماعت پارلیمانی سطح پر کمزور ہو چکی ہے اور سابق حکمران اتحاد نے عدلیہ کے کردار پر بھی کھلے عام تنقید کی ہے، اس ترمیم کا آنا اتفاق نہیں لگتا بلکہ ایک طے شدہ اور سوچا سمجھا قدم محسوس ہوتا ہے۔ ماضی میں عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کیا، نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو عدالتی مقدمات میں الجھایا، آر ٹی ایس سسٹم کے ذریعے انتخابات جیتے اور اقتدار میں آنے کے بعد اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کیے، پھر جب وہی اسٹیبلشمنٹ اس کے خلاف ہوئی تو وہی نظام اس کے لیے قید و بند، عدالتوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ بن گیا۔ اس پورے پس منظر نے طاقت کے اداروں کو یہ احساس دلایا کہ اگر کسی فرد کو عوامی مقبولیت کے ساتھ ادارہ جاتی حمایت بھی مل جائے تو وہ پورے نظام کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے، یہی وہ خوف ہے جس نے ستائیسویں ترمیم کے خدوخال تیار کیے۔ ترمیم میں جن نکات کو شامل کیا گیا ہے ان میں ایک فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا قیام، عدالتی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی، سپریم کورٹ کے اختیارات کی ازسرنو تقسیم اور دفاعی ڈھانچے کے اندر ایک متحدہ کمانڈ اسٹرکچر شامل ہے، ان سب کا مجموعی اثر یہ ہے کہ مستقبل میں کوئی ایک فرد عدلیہ، فوج یا کسی اور ادارے کے ذریعے طاقت کے توازن کو یکطرفہ طور پر تبدیل نہ کر سکے۔ حکومت کی جانب سے موقف دیا جا رہا ہے کہ یہ ترمیم اداروں کے درمیان توازن اور عدلیہ کی شفافیت کو بڑھانے کے لیے کی گئی ہے لیکن ناقدین کے نزدیک یہ دراصل ایک ایسا آئینی حصار ہے جو عمران خان جیسے کسی بھی عوامی لیڈر کو دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھیلنے سے روکے گا۔ اگر اس ترمیم کے قانونی پہلو پر غور کیا جائے تو آئین میں کسی شخص یا جماعت کا نام نہیں لیا گیا اس لیے رسمی طور پر یہ کسی کو روکنے کے لیے نہیں لیکن پاکستان کی سیاسی روایت بتاتی ہے کہ آئینی ترامیم ہمیشہ طاقت کے بدلتے رجحانات کے تحت کی جاتی ہیں۔ جیسے جنرل ضیاء الحق نے 58(2)(b) کے ذریعے صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار دیا، نواز شریف نے 13ویں ترمیم کے ذریعے یہی اختیار ختم کیا، زرداری حکومت نے 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خودمختاری دی، اسی تسلسل میں ستائیسویں ترمیم کو ریاستی اداروں کے تحفظ کی آئینی ضمانت قرار دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ حکومتی اراکین اسے استحکام کا راستہ کہہ رہے ہیں مگر اپوزیشن کے نزدیک یہ دراصل ایک سیاسی فصیل ہے جو اس امکان کو روکتی ہے کہ مستقبل میں کوئی رہنما عوامی حمایت کے بل پر اداروں کو للکار سکے۔ آئین میں شامل یہ ترامیم فوری طور پر اقتدار کے توازن کو مستحکم کر سکتی ہیں مگر طویل المیعاد اثر یہ ہو سکتا ہے کہ سیاسی عمل میں مزید بے اعتمادی اور خلیج پیدا ہو۔ یہ تاثر بھی مضبوط ہوا ہے کہ جب سیاسی قوتیں آئین کے ذریعے اپنے مخالفین کو محدود کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو آئینی اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ستائیسویں ترمیم کو محض ایک آئینی نہیں بلکہ سیاسی ترمیم کہا جا رہا ہے جو بظاہر اصلاحات کے پردے میں کسی ممکنہ خطرے کو روکنے کے لیے کی گئی ہے۔ ثبوت اگرچہ موجود نہیں کہ یہ اقدام براہ راست عمران خان کو نشانہ بنانے کے لیے تھا مگر قرائن، حالات اور وقت کا انتخاب واضح کرتا ہے کہ اس قانون سازی کے پیچھے ایک خوف پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ کسی ایک شخص کو دوبارہ ریاستی نظام کو اپنی مرضی کے مطابق جھکانے کی اجازت نہ دی جائے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ترمیم آئین کے نام پر نظام کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں آئندہ ممکنہ طوفانوں کے راستے میں ایک بند باندھنے کی کوشش ہے، اب یہ بند کتنا مضبوط یا کمزور ثابت ہوتا ہے اس کا فیصلہ وقت اور عوامی شعور کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں