(میاں افتخار احمد)
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات عالمی سیاست کی تاریخ میں ایک ایسے پیچیدہ اور کثیرالجہتی رشتے کی مثال ہیں جو وقت کے ساتھ بدلتا رہا، جس میں کبھی قربت رہی، کبھی شدید بداعتمادی، کبھی مفادات کا اشتراک اور کبھی واضح تصادم دیکھنے میں آیا۔ یہ تعلقات کسی مستقل نظریاتی ہم آہنگی کے بجائے زیادہ تر جغرافیائی، عسکری اور معاشی مفادات کے تحت تشکیل پاتے رہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد امریکہ نے جنوبی ایشیا میں پاکستان کو ایک ممکنہ اتحادی کے طور پر دیکھا، اس وقت سرد جنگ اپنے عروج پر تھی اور امریکہ سوویت یونین کے پھیلتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے ایسے ممالک کی تلاش میں تھا جو اس کے اسٹریٹجک اہداف میں معاون بن سکیں۔ پاکستان نے بھی اس وقت معاشی کمزوری، سلامتی کے خدشات اور بھارت کے ساتھ تنازع کی وجہ سے مغربی بلاک کا انتخاب کیا، یہی وجہ تھی کہ سیٹو اور سینٹو جیسے دفاعی معاہدوں میں شمولیت عمل میں آئی۔
تاہم جلد ہی یہ حقیقت سامنے آ گئی کہ دونوں ممالک کے مقاصد اور ترجیحات مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہیں، امریکہ کے لیے پاکستان ایک خطے تک محدود اسٹریٹجک اثاثہ تھا جبکہ پاکستان امریکہ کو اپنی سلامتی کی ضمانت سمجھ رہا تھا۔ 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں امریکی رویے نے پاکستانی عوام میں شدید مایوسی پیدا کی، خاص طور پر 1971 میں مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران امریکہ کی پالیسی نے یہ احساس گہرا کیا کہ واشنگٹن مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے اپنے وسیع تر عالمی مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکی تحفظات، پابندیاں اور پریسلر ترمیم جیسے اقدامات نے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی خلیج کو مزید وسیع کر دیا، ایف سولہ طیاروں کی ادائیگی کے باوجود عدم فراہمی آج بھی پاکستان میں امریکی وعدوں کی عدم تکمیل کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔ افغان جہاد کے دور میں ایک بار پھر دونوں ممالک قریب آئے، سوویت یونین کے خلاف مشترکہ مفادات نے تعاون کو نئی جہت دی، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھایا اور خطے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا، مگر سوویت انخلا کے بعد امریکہ کا اچانک لاتعلق ہو جانا پاکستان کے لیے ایک تلخ تجربہ ثابت ہوا، جس کے اثرات اسلحہ، منشیات اور انتہا پسندی کی صورت میں آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد ایک مرتبہ پھر تاریخ نے خود کو دہرایا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی قرار دیا گیا، پاکستان نے بے پناہ جانی اور مالی قربانیاں دیں، معیشت کو نقصان پہنچا، داخلی سلامتی کے مسائل بڑھے، مگر اس کے باوجود اعتماد کا فقدان برقرار رہا، ڈو مور کے مطالبات، ڈرون حملے اور یکطرفہ اقدامات نے تعلقات کو شدید تناؤ کا شکار رکھا۔ ایبٹ آباد آپریشن جیسے واقعات نے ریاستی خودمختاری اور باہمی اعتماد پر سنگین سوالات کھڑے کیے اور پاک۔امریکہ تعلقات تصادم کی کیفیت میں داخل ہو گئے۔ تاہم عالمی سیاست میں مستقل دشمن یا مستقل دوست نہیں ہوتے بلکہ مستقل مفادات ہوتے ہیں، یہی اصول وقت کے ساتھ پاک۔امریکہ تعلقات میں بھی ایک نئی سوچ کو جنم دے رہا ہے۔ امریکہ اب خطے کو محض دہشت گردی کے تناظر میں نہیں دیکھ رہا بلکہ چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ، ایشیا پیسیفک میں طاقت کے توازن اور وسط ایشیا تک معاشی و تجارتی رسائی جیسے عوامل نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان بھی یہ ادراک کر چکا ہے کہ صرف شکایات، ماضی کے زخم اور الزام تراشی سے آگے بڑھنا ممکن نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ سفارت کاری اور معاشی ترجیحات ہی مستقبل کا راستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں پاک۔امریکہ تعلقات کا محور سیکیورٹی سے بتدریج معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم، ٹیکنالوجی اور ماحولیاتی تعاون کی طرف منتقل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی کاروباری حلقے پاکستان کی بڑی صارف مارکیٹ، نوجوان آبادی اور ابھرتی ہوئی ڈیجیٹل اکانومی میں دلچسپی لے رہے ہیں، آئی ٹی ایکسپورٹس، فری لانسنگ اور سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ کے شعبے میں پاکستانی نوجوان امریکی مارکیٹ سے منسلک ہو کر نہ صرف زرمبادلہ کما رہے ہیں بلکہ پاکستان کا ایک مثبت اور جدید امیج بھی تشکیل دے رہے ہیں۔ تعلیمی میدان میں فلبرائٹ پروگرام اور دیگر تعلیمی تبادلوں نے دونوں ممالک کے درمیان ایک مضبوط انسانی رشتہ قائم کیا ہے، ہزاروں پاکستانی طلبہ امریکی جامعات سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے وطن واپس آتے ہیں یا عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں، یہ نالج ٹرانسفر اور سافٹ پاور کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی اس تعلق میں ایک پل کا کردار ادا کر سکتی ہے، جو امریکی سیاست، معیشت، طب، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نمایاں مقام رکھتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں کے ازالے میں مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات نے بھی پاک۔امریکہ تعاون کے نئے امکانات پیدا کیے ہیں، پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، سیلاب، گلیشیئر پگھلاؤ اور شدید موسمی واقعات نے معیشت اور انسانی زندگی کو شدید نقصان پہنچایا ہے، ایسے میں امریکہ کلائمیٹ فنانس، گرین انرجی، قابل تجدید ذرائع اور تکنیکی معاونت کے ذریعے ایک تعمیری شراکت دار بن سکتا ہے۔
دفاعی اور سیکیورٹی تعاون اگرچہ اب بھی حساس اور نازک شعبہ ہے مگر ماضی کی نسبت زیادہ حقیقت پسندانہ بنیادوں پر آگے بڑھ رہا ہے، ملٹری ٹو ملٹری روابط، تربیتی پروگرام اور انسداد دہشت گردی میں معلومات کا تبادلہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے بشرطیکہ اسے باہمی احترام اور خودمختاری کے اصولوں کے تحت آگے بڑھایا جائے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ دونوں کو اب ایک دوسرے سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کرنے کے بجائے واضح، محدود اور قابل عمل اہداف طے کرنے ہوں گے۔ پاکستان امریکہ کا تابع اتحادی بننے کے بجائے ایک خودمختار اور باوقار شراکت دار بننا چاہتا ہے جبکہ امریکہ کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ پاکستان کے چین، روس اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات اس کی آزاد خارجہ پالیسی کا فطری حصہ ہیں، انہیں صفر جمع صفر کے کھیل کے طور پر دیکھنا تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر دونوں ممالک امداد کے بجائے تجارت، دباؤ کے بجائے احترام، اور خفیہ ایجنڈوں کے بجائے عوامی و معاشی رابطوں کو ترجیح دیں تو پاک۔امریکہ تعلقات تصادم کے ماضی سے نکل کر شراکت کے ایک نئے اور پائیدار دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ریاستیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کے امکانات پر توجہ دیں کیونکہ ایک متوازن، حقیقت پسندانہ اور باہمی مفاد پر مبنی پاکستان۔امریکہ تعلق نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے امن، استحکام اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
