0

پانی کا بحران اور آبی جنگ کا خطرہ, ماحولیاتی تبدیلی اور پاکستان

(Publish from Houston Texas USA)

(میاں افتخار احمد)
پانی کا بحران اور آبی جنگ کا خطرہ، ماحولیاتی تبدیلی اور پاکستان آج کے پاکستان کے لیے محض ماحولیاتی یا تکنیکی مسائل نہیں رہے بلکہ یہ قومی سلامتی، معاشی بقا اور سماجی استحکام کے بنیادی سوالات بن چکے ہیں، کیونکہ ایک ایسا ملک جو دریاؤں کے نظام پر قائم تھا آج تیزی سے پانی کی قلت کا شکار ہو رہا ہے اور اس قلت کے پیچھے صرف قدرتی عوامل نہیں بلکہ انسانی غفلت، ناقص پالیسی سازی اور ماحولیاتی تبدیلی کی سنگین حقیقتیں بھی کارفرما ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو شدید آبی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، جہاں فی کس دستیاب پانی خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے، آبادی میں تیز رفتار اضافہ، غیر منصوبہ بند شہری پھیلاؤ، زراعت میں فرسودہ آبپاشی نظام اور صنعتی آلودگی نے پانی کے وسائل کو بری طرح متاثر کیا ہے، جبکہ موسمیاتی تبدیلی نے اس بحران کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا بظاہر وقتی طور پر پانی کی فراہمی میں اضافے کا تاثر دیتا ہے مگر طویل المدت طور پر یہ دریاؤں کے نظام کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ گلیشیئرز کا غیر معمولی پگھلاؤ مستقبل میں پانی کے مستقل ذخائر کو ختم کر دے گا اور شدید سیلابوں کے بعد طویل خشک سالی کا خطرہ بڑھ جائے گا، جس کے اثرات پہلے ہی پاکستان کے مختلف حصوں میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث بارشوں کے پیٹرن غیر متوازن ہو چکے ہیں، کہیں غیر معمولی بارشیں تباہ کن سیلاب لے کر آتی ہیں اور کہیں طویل عرصے تک بارش نہ ہونے سے قحط جیسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، جس کا براہ راست اثر زراعت، خوراک کی پیداوار اور دیہی معیشت پر پڑتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا بڑا دارومدار زراعت پر ہے، اور جب پانی کی قلت فصلوں کو متاثر کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں مہنگائی، غذائی عدم تحفظ اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے، جو بالآخر سماجی بے چینی اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دیتا ہے۔ پانی کا بحران داخلی سطح تک محدود نہیں بلکہ اس کا تعلق علاقائی سیاست اور ممکنہ آبی جنگ کے خطرے سے بھی جڑا ہوا ہے، خاص طور پر بھارت کے ساتھ دریائے سندھ کے نظام پر جاری کشیدگی ایک حساس مسئلہ بن چکی ہے۔ اگرچہ سندھ طاس معاہدہ کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے، مگر بدلتے ہوئے سیاسی حالات، بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کی قلت نے اس معاہدے پر دباؤ بڑھا دیا ہے، اور بھارت کی جانب سے ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے بہاؤ پر کنٹرول سے متعلق خدشات پاکستان میں آبی سلامتی کے حوالے سے شدید تشویش پیدا کرتے ہیں۔ مستقبل میں پانی کو بطور ہتھیار استعمال کیے جانے کا امکان، جسے آبی جنگ کہا جاتا ہے، کسی خیالی تصور تک محدود نہیں رہا بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں پانی کے وسائل پر تنازعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ آنے والی جنگیں تیل نہیں بلکہ پانی پر لڑی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ خطرہ اس لیے بھی زیادہ سنگین ہے کہ وہ پہلے ہی اندرونی طور پر پانی کے غیر منصفانہ استعمال اور صوبائی تنازعات کا شکار ہے، جہاں ایک صوبہ دوسرے پر پانی چوری یا ناانصافی کے الزامات لگاتا ہے، جس سے قومی یکجہتی کمزور ہوتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی نے ان تنازعات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے کیونکہ جب وسائل کم ہوتے ہیں تو تنازع شدت اختیار کر لیتا ہے، اور اگر ریاست بروقت مؤثر پالیسی نہ بنائے تو یہ تنازع سیاسی اور نسلی بنیادوں پر پھیل سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پانی کے انتظام کو ہمیشہ ثانوی حیثیت دی گئی، بڑے ڈیموں کی تعمیر سیاسی تنازعات کا شکار رہی، چھوٹے آبی ذخائر اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے نظرانداز کیے گئے، اور زراعت میں جدید واٹر مینجمنٹ ٹیکنالوجی کو فروغ نہ دیا جا سکا، جس کے نتیجے میں قیمتی پانی کا بڑا حصہ ضائع ہوتا رہا۔ شہروں میں صورتحال اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے جہاں زیر زمین پانی بے دریغ نکالا جا رہا ہے، جس سے واٹر ٹیبل خطرناک حد تک نیچے جا چکا ہے، اور صاف پینے کے پانی کی قلت صحت کے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات میں درجہ حرارت میں اضافہ، ہیٹ ویوز، سموگ اور آلودگی بھی شامل ہیں جو پانی کے بحران کے ساتھ مل کر انسانی زندگی کو مزید مشکل بنا رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مستقبل میں پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سیکیورٹی ایشو بن جائے گا، جس پر داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر کشیدگی بڑھے گی۔ اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو فوری اور طویل المدت حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس میں پانی کو قومی سلامتی کا مسئلہ تسلیم کیا جائے، موسمیاتی تبدیلی کو پالیسی سازی کے مرکز میں رکھا جائے، اور پانی کے منصفانہ اور مؤثر استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ جدید آبپاشی نظام، ڈرپ اور اسپرنکلر ٹیکنالوجی کا فروغ، فصلوں کے انتخاب میں پانی کی دستیابی کو مدنظر رکھنا، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے، گلیشیئرز کی مانیٹرنگ اور آبی ڈپلومیسی کو مضبوط بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنا بھی ناگزیر ہے، کیونکہ جب تک پانی کو ایک قیمتی قومی اثاثہ سمجھ کر استعمال نہیں کیا جائے گا، کوئی بھی حکومتی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کا مستقبل اس بات سے جڑا ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج کو کس سنجیدگی سے لیتا ہے اور پانی کے بحران کو حل کرنے کے لیے کس حد تک متحد ہو کر فیصلے کرتا ہے، کیونکہ اگر ہم نے آج اس مسئلے کو نظرانداز کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی، اور وہ دن دور نہیں جب پانی کی قلت ایک خاموش بحران سے نکل کر ایک کھلی آبی جنگ کی شکل اختیار کر لے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں