0

ملاوٹ: پاکستان میں صحتِ عامہ پر خاموش حملہ

(Publish from Houston Texas USA)

(بریگیڈیئر صادق راہی، ستارۂ امتیاز ملٹری)

پاکستان اس وقت جن سنگین چیلنجز سے دوچار ہے، اُن میں ایک خطرہ ایسا بھی ہے جو نہ سرحدوں پر دکھائی دیتا ہے، نہ خبروں کی سرخیوں میں مستقل جگہ پاتا ہے، مگر یہ خطرہ ہماری رگوں میں اتر رہا ہے، ہمارے بچوں کے جسموں میں پل رہا ہے اور ہماری آنے والی نسلوں کو خاموشی سے کھوکھلا کر رہا ہے۔
یہ خطرہ ہے ملاوٹ — ایک ایسا جرم جو محض اخلاقی زوال نہیں بلکہ قومی بقا، صحتِ عامہ اور ریاستی ذمہ داری پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔

آج پاکستان کے شہری اور میٹروپولیٹن علاقوں میں خالص خوراک کا حصول ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ دودھ، گوشت، سبزیاں، پھل اور مصالحہ جات—ہر وہ شے جو زندگی بخشنی چاہیے—اب بیماری بانٹ رہی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ملاوٹ ہو رہی ہے، اصل سوال یہ ہے کہ ریاست، معاشرہ اور نظام کب تک تماشائی بنے رہیں گے؟

دودھ: سفید مائع یا سفید زہر؟

پاکستان میں سب سے زیادہ اور خطرناک ملاوٹ دودھ میں کی جا رہی ہے۔ دودھ جو بچوں کی نشوونما، مریضوں کی بحالی اور بزرگوں کی قوت کا ذریعہ ہے، اب کیمیکل فیکٹریوں کی پیداوار بن چکا ہے۔ پانی، پاوڈر، ڈیٹرجنٹ، یوریا، نشاستہ اور نہ جانے کون کون سے زہریلے اجزاء ملا کر اسے ’’دودھ‘‘ کے نام پر فروخت کیا جا رہا ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد فوڈ اتھارٹی کی کارروائی نے اس تلخ حقیقت سے پردہ اٹھایا، جب ایک لاکھ لیٹر سے زائد کیمیکل سے تیار کردہ دودھ ضبط کیا گیا اور پچاس ہزار لیٹر دودھ موقع پر تلف کرنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ یہ دودھ کل تک کہاں جا رہا تھا؟ کن گھروں میں داخل ہو رہا تھا؟ کن بچوں کے جسم میں جا رہا تھا؟ اور سب سے اہم سوال: یہ سب کس کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا؟

ملاوٹ: ایک منظم مافیا

ملاوٹ اب صرف دودھ تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ ایک منظم مافیا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بیمار اور مردار جانوروں کا گوشت، لال مرچ میں اینٹوں کا برادہ، ہلدی میں کیمیکل رنگ، پھلوں پر زہریلے اسپرے، مٹھائیوں، آئس کریم، کولڈ ڈرنکس اور کھانے کے تیل میں ناقص اور خطرناک اجزاء—یہ سب اب روزمرہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔

یہ محض منافع خوری نہیں، یہ قومی جرم ہے۔ یہ وہ خاموش جنگ ہے جس میں دشمن سرحد پار نہیں، بلکہ ہمارے اندر موجود ہے۔

ملاوٹ کے اسباب: نظام کی شکست

یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ اس کے اسباب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ طلب و رسد کا بگاڑ، کمزور نگرانی، ناقص چیک اینڈ بیلنس، قوانین کی موجودگی کے باوجود عملدرآمد کا فقدان، عوام کی سستی اشیاء کی طلب، اور سب سے بڑھ کر کرپشن اور ملی بھگت۔
جب سزا کا خوف ختم ہو جائے تو جرم کاروبار بن جاتا ہے، اور آج ملاوٹ ایک منافع بخش صنعت بن چکی ہے۔

صحتِ عامہ: تباہی کا خاموش راستہ

ملاوٹ شدہ خوراک کے اثرات فوری طور پر نظر نہیں آتے، مگر یہ آہستہ آہستہ جسم کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ بچوں میں نشوونما رک جاتی ہے، ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔ بڑوں میں جگر، گردے اور معدے کے امراض بڑھتے ہیں، جبکہ کینسر اور ہارمونل ڈس آرڈرز تیزی سے عام ہو رہے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہسپتال بھر رہے ہیں، مگر بیماریوں کی جڑ پر ہاتھ ڈالنے کو کوئی تیار نہیں۔

فوڈ اتھارٹیز: کوششیں، مگر ناکافی

یہ کہنا ناانصافی ہوگی کہ فوڈ اتھارٹیز کچھ نہیں کر رہیں، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے وسائل محدود ہیں، سیاسی دباؤ موجود ہے، اور ذمہ داریوں کی غیر واضح تقسیم کے باعث فوڈ اتھارٹی، PERA اور لوکل باڈیز ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر بری الذمہ ہو جاتی ہیں۔ فیلڈ میں موجود بعض اہلکاروں کی کرپشن اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیتی ہے۔

اب کیا کرنا ہوگا؟

اب وقت بیانات اور وقتی کارروائیوں کا نہیں، ریاستی عزم کا ہے۔ فوڈ اتھارٹیز کو حقیقی معنوں میں بااختیار بنانا ہوگا۔ موبائل لیبارٹریز، جدید آلات اور موقع پر ٹیسٹنگ کا مؤثر نظام ناگزیر ہے۔ دکانوں کی سیلنگ، مال کی ضبطی اور مستقل نااہلی جیسی سخت سزائیں دی جائیں۔

مجسٹریٹ نظام کو بحال کیا جائے اور یورپ و عرب ممالک کی طرز پر میونسپل اداروں کو بااختیار بنایا جائے تاکہ فوری انصاف ممکن ہو۔ فوڈ اتھارٹی اور دیگر اداروں کے درمیان ذمہ داریوں کی واضح تقسیم کی جائے۔ کرپٹ سرکاری اہلکاروں کے خلاف زیرو ٹالرنس اپنائی جائے۔

عوامی آگاہی مہم چلائی جائے، شکایت درج کرانے کا نظام آسان بنایا جائے، شہروں کے داخلی راستوں پر سپلائی چین کی سخت نگرانی ہو اور تمام وینڈرز و سپلائرز کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جائے تاکہ ہر شے قابلِ سراغ ہو۔

اختتامیہ: ریاست یا تماشائی؟

آخر میں سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کا فرض صرف ٹیکس لینا ہے، یا شہریوں کو محفوظ خوراک فراہم کرنا بھی اس کی بنیادی ذمہ داری ہے؟
اگر ملاوٹ کے اس عفریت کو آج نہ روکا گیا تو کل ہمارے حصے میں ایک بیمار قوم، کمزور معیشت اور مفلوج مستقبل کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

ملاوٹ کے خلاف جنگ صرف فوڈ اتھارٹی کی نہیں، پوری قوم کی جنگ ہے۔
اور اس جنگ میں خاموشی بھی جرم ہے۔


مصنف کا تعارف
صادق راھی
sadiqrahi8@gmail.com
بریگیڈیئر محمد صادق راہی ریٹائرڈ ایک تجربہ کار منتظم، وژنری لیڈر اور جدید شہری سہولیات کے ماہر ہیں۔ بطور صدر کنٹونمنٹ بورڈ انہوں نے عوام دوست بلدیاتی خدمات کی فراہمی کو ایک مؤثر، منظم اور شفاف نظام میں ڈھالا۔ بعدازاں بطور ڈائریکٹر عسکری کالونیز مینجمنٹ، آرمی ہاؤسنگ ڈائریکٹوریٹ، انہوں نے پاکستان بھر کی 65 عسکری کالونیوں میں رہائشی ماحول کو معیاری، محفوظ اور جدید شہری سہولتوں سے آراستہ بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

ان کی قیادت میں کنونینس، سیکیورٹی، صفائی، انفراسٹرکچر اور کمیونٹی سروسز کا ایسا قابلِ تقلید ماڈل تشکیل پایا جسے ملک بھر میں ایک منفرد مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے ہر کالونی میں 24/7 فعال “فیسِلیٹیشن سینٹرز” قائم کیے، جنہوں نے رہائشی مسائل کے فوری، مؤثر اور بروقت حل کو ایک ادارہ جاتی شکل دی—یہ اقدام عسکری ہاؤسنگ کے نظام میں ایک سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔

بریگیڈیئر صادق راہی کا پیشہ ورانہ سفر نہ صرف ان کی انتظامی صلاحیتوں کا مظہر ہے بلکہ پاکستان میں شہری سہولیات کی بہتری کے لیے ان کی گہری وابستگی کا بھی روشن ثبوت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں