(Publish from Houston Texas USA)
(میاں افتخار احمد)
چین اور روس کے بڑھتے ہوئے عسکری تعلقات نے عالمی سیاست میں ایک نئی ہلچل پیدا کر دی ہے اور کئی مبصرین اسے اکیسویں صدی کی نئی سرد جنگ کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ جہاں امریکہ اپنی عالمی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے نئے اتحاد تشکیل دے رہا ہے وہاں چین اور روس مل کر ایک ایسے دفاعی اور اسٹریٹجک بلاک کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو نہ صرف ایشیا بلکہ یورپ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ تک اپنی گہری جڑیں پھیلا سکتا ہے یہ ملٹری کوآپریشن صرف ہتھیاروں کے تبادلے یا مشترکہ مشقوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں جدید ٹیکنالوجی، دفاعی صنعت، انٹیلی جنس شیئرنگ، خلائی تحقیقات، سائبر وارفیئر اور نیول اسٹریٹجی جیسے حساس شعبے شامل ہیں جس نے عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے لیے شدید تشویش پیدا کر دی ہے کیونکہ چین اور روس دونوں عالمی نظام کو امریکہ کی بالادستی سے نکال کر ایک کثیرالجہتی نظام کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور یہی خواہش اس نئے توازن طاقت کی بنیاد بن رہی ہے اس تناظر میں اگر روس یوکرین جنگ اور چین تائیوان تنازع کو دیکھا جائے تو دونوں ممالک دفاعی اعتبار سے ایک دوسرے کے لیے ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں روس کے لیے چین سب سے اہم اقتصادی و ٹیکنالوجی سہارا بنتا جا رہا ہے جبکہ چین کے لیے روس وہ جغرافیائی طاقت ہے جو مغربی دنیا کے دباؤ کو کم کرتی ہے دونوں ممالک کی مشترکہ بحری مشقیں، ایشیا پیسفک میں نیول پیٹرولنگ، ہائپر سونک میزائل ٹیکنالوجی کا اشتراک، ڈرون استعداد میں اضافہ، جوائنٹ ڈیفنس پروڈکشن اور ملٹری لاجسٹکس کے نئے روٹس عالمی نظام میں طاقت کے توازن کو تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں ان دونوں کا تعاون عالمی اسٹریٹجک اداروں جیسے شانگھائی تعاون تنظیم، BRICS پلیٹ فارم، یوریشین اکنامک یونین اور سلک روڈ سیکیورٹی نیٹ ورکس میں بھی مضبوط ہو رہا ہے جس سے امریکی مفادات کو براہ راست چیلنج ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن نہ صرف بھارت، جاپان، آسٹریلیا اور یورپ کے ذریعے ایک نیا اسٹریٹجک حصار قائم کر رہا ہے بلکہ ٹیکنالوجی جنگ، اقتصادی پابندیوں اور ملٹری بیسز کے ذریعے چین روس کے اتحاد کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ دونوں طاقتیں اپنی نئی عسکری ہم آہنگی کے ساتھ عالمی سیاست کو ایک نئی تقسیم کی جانب دھکیل رہی ہیں اور یہی تقسیم نئی سرد جنگ کا بنیادی ایندھن بن رہی ہے اس عالمی مقابلے میں پاکستان ایک انتہائی نازک مقام پر کھڑا ہے جہاں اس کی جغرافیائی اہمیت، دفاعی ضروریات، اقتصادی مشکلات، سفارتی توازن اور علاقائی سکیورٹی چیلنجز اسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی ایک بلاک کی طرف فیصلہ کن مائل ہونے کے بجائے توازن کی پالیسی اختیار کرے پاکستان کا چین کے ساتھ اسٹریٹجک اور دفاعی تعلق کئی دہائیوں پر محیط ہے سی پیک، JF-17 پروگرام، جدید میزائل سسٹمز، دفاعی ٹیکنالوجی کا تعاون، نیول مقاصد کے لیے چینی مدد، اور اکنامک سپورٹ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چین کو مرکزی مقام دیتا ہے دوسری طرف پاکستان کی فوجی تربیت، انٹیلی جنس تعاون، ایف سولہ پروگرام، کاؤنٹر ٹیررازم سپورٹ اور IMF کے ذریعے معاشی استحکام جیسے عوامل امریکہ کو بھی ایک تاریخی اتحادی بناتے ہیں روس کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات پچھلے دس برسوں میں خاصے بہتر ہوئے ہیں اکنامک، انرجی اور ڈیفنس کے شعبوں میں پیش رفت ہوئی ہے افغانستان کے معاملے میں دونوں ممالک کے مفادات کافی جگہوں پر ملتے ہیں لیکن روس کا چین کے ساتھ بڑھتا ہوا اسٹریٹجک اتحاد پاکستان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ مستقبل میں روس چین بلاک کے قریب رہنا اس کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتا ہے پاکستان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ امریکہ کی ناراضگی مول لے سکتا ہے یا اسے چین روس بلاک کے ساتھ مکمل انضمام اختیار کرنا چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معاشی کمزوری، سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی کے خدشات اور دفاعی ضروریات اسے اپنی خارجہ پالیسی میں اس حد تک لچکدار بناتی ہیں کہ وہ کسی ایک بلاک کا حصہ بننے کے بجائے توازن برقرار رکھنے میں ہی اپنی بقا سمجھتا ہے نئی سرد جنگ اگر پوری شدت کے ساتھ ابھرتی ہے تو پاکستان کو تین بڑے چیلنج درپیش ہوں گے پہلا یہ کہ امریکہ پاکستان پر چین سے فاصلے بڑھانے کا دباؤ بڑھا سکتا ہے دوسرا چین پاکستان کو اپنے خطے کے دفاعی حصار میں مزید مرکزی کردار دینے کی کوشش کرے گا اور تیسرا روس پاکستان سے توقع رکھے گا کہ وہ مغرب مخالف بلاک کا حصہ بنے ایسے میں پاکستان کی سیاسی قیادت اور عسکری اداروں کے لیے یہ فیصلہ سب سے مشکل ہو گا کہ وہ کن عالمی تعلقات میں کتنی دور تک جا سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کے لیے دونوں جانب خطرات بھی ہیں اور مواقع بھی اگر وہ امریکہ سے دور ہوتا ہے تو IMF، تجارت، ٹیکنالوجی اور دفاعی شعبوں میں مشکلات بڑھ سکتی ہیں اور اگر چین روس بلاک سے فاصلہ بڑھایا جاتا ہے تو پاکستان اپنے سب سے بڑے معاشی اور دفاعی شراکت دار کو ناراض کر بیٹھے گا اس لیے پاکستانی اسٹیٹ اس وقت جس حکمت عملی پر کاربند دکھائی دیتی ہے وہ ہے ملٹی ویکٹر ڈپلومیسی یعنی ہر طاقت سے تعلق رکھنا، ہر بلاک کے ساتھ کام کرنا اور کوئی ایک جانب پوری طرح جھکاؤ ظاہر نہ کرنا مستقبل میں نئی سرد جنگ کیا شکل اختیار کرتی ہے اس کا دارومدار یوکرین جنگ، تائیوان تنازع، مشرق وسطیٰ کی صورتحال، عالمی معیشت اور امریکہ چین تعلقات پر ہو گا لیکن پاکستان کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی اہمیت، عسکری صلاحیت اور سفارتی وزن کو متوازن انداز میں استعمال کرے تاکہ وہ عالمی مقابلوں کا ایندھن بننے کے بجائے ان مقابلوں کو اپنے فائدے میں بدل سکے یہی وہ حکمت عملی ہے جو پاکستان کو چائنہ روس ملٹری کوآپریشن کے اس دور میں نئی سرد جنگ کے درمیان محفوظ رکھ سکتی ہے اور اسے مستقبل کے عالمی منظرنامے میں ایک ذمہ دار، خود مختار اور توازن پر مبنی ریاست کے طور پر آگے بڑھنے کا موقع دے سکتی ہے
