0

جنرل عاصم منیر پر پابندیوں کا مطالبہ: پاکستان کا واضح مؤقف — فیصلے واشنگٹن میں نہیں، پاکستان میں ہوں گے

(By: Asim Siddiqui, Washington, DC)

(تحریر: عاصم صدیقی واشنگٹن ڈی سی)

چوالیس امریکی کانگریس اراکین کے دستخط شدہ خط نے پاکستان میں شدید ردِعمل پیدا کر دیا ہے، کیونکہ واشنگٹن کے قانون سازوں نے پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور دیگر حکام پر انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور سیاسی دباؤ کے الزامات کی بنیاد پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ خط — جس کی قیادت کانگریس ممبرز پُرمِلا جے پال اور گریگ کیسر کر رہے ہیں — میں امریکہ میں مقیم صحافی احمد نورانی، موسیقار سلمان احمد، اور احتجاجیوں، اقلیتوں اور سیاسی مخالفین پر ہونے والے مبینہ کریک ڈاؤن کا حوالہ دیا گیا ہے۔ احمد نورانی کے بارے میں یہ رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں کہ وہ امریکہ میں رہتے ہوئے پاکستانی وفاقی افسران سے حساس معلومات حاصل کرتے رہے یہ معاملہ میڈیا میں وسیع پیمانے پر زیرِ بحث رہا ہے۔ وہ بیرونِ ملک بیٹھ کر مسلسل پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نما تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب سلمان احمد، امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں تحریکِ انصاف کا بیانیہ بھرپور انداز میں پیش کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں اس خط کے باوجود پاکستان اسے امریکی پالیسی میں تبدیلی کے بجائے محض سیاسی دباؤ قرار دے رہا ہے۔ اسلام آباد نے واضح کیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا، نہ ہی وہ سیاسی قیدیوں یا عدالتی عمل پر اثرانداز ہونے کے لیے کوئی حکم جاری کر سکتا ہے۔ اگر مستقبل میں پابندیاں عائد بھی ہوئیں تو وہ اشخاص تک محدود ہوں گی، نہ کہ پاکستانی ریاست پر۔ اسلام آباد کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ خط بیرونِ ملک موجود لابنگ گروپس کے اثرات کا نتیجہ دکھائی دیتا ہے اور یہ امریکی محکمۂ خارجہ کا باضابطہ مؤقف ہرگز نہیں۔ توقع ہے کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ اس خط پر باضابطہ ردِعمل دے گی، ملکی خودمختاری کو اجاگر کرے گی اور بیرونی مداخلت کو مسترد کرے گی۔ ساتھ ہی واشنگٹن سے سفارتی سطح پر رابطے بھی کیے جائیں گے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا واقعی امریکی حکومت ایسے کسی اقدام پر غور کر رہی ہے یا نہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ پیش رفت دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافے کی نشاندہی کرتی ہے، تاہم یہ کوئی سفارتی بحران نہیں۔ پاکستان کا مؤقف واضح ہے: ملک کے نظامِ حکومت، اداروں اور سیاسی مستقبل سے متعلق فیصلے پاکستان کے اندر ہوں گے، نہ کہ بیرونی قانون سازوں کے دباؤ پر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں