0

کم عمر طلبہ پر چالان — ایک انتظامی ضرورت یا معاشرتی ناانصافی؟

(Publish from Houston Texas USA)

(از: بریگیڈیئر صادق راہی، ستارہ امتیاز ملٹری، ریٹائرڈ)

قوم کا مستقبل سزا کا نہیں، سہولت کا مستحق ہے

پنجاب، پاکستان میں گزشتہ چند دنوں کے دوران کم عمر موٹر بائیک سوار طلبہ پر ٹریفک پولیس کی جانب سے چالان، جرمانے اور قانونی کارروائیوں کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانا خلافِ قانون ہے، اور اس پر کارروائی ہونا ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ نہیں کہ قانون کیا ہے؛ اصل سوال یہ ہے کہ کیا صرف قانون ہی کافی ہوتا ہے؟ کیا ایک قوم کی نئی نسل کو نظم و ضبط سکھانے کا واحد طریقہ جرمانے اور چالان ہیں؟ کیا انتظامی سہولت یا ریاستی غفلت کا بوجھ بارہ سے سترہ سال کے اُن بچوں پر ڈال دینا انصاف ہے جو محض مجبوری کے تحت روزانہ اسکول اور کالج کا سفر خود طے کرتے ہیں؟ یہ بحث محض ٹریفک قوانین کی نہیں، یہ ملک کے مستقبل اور ہماری قومی ترجیحات کی بحث ہے۔ دیہی اور شہری حقیقت: جب گھر میں کوئی بڑا موجود نہیں ہوتا

پاکستان کے 70 فیصد سے زائد گھرانوں میں معاشی دباؤ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ والدین صبح سویرے کام پر نک جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں، چھوٹے شہروں اور نواحی بستیوں میں تو صورتحال مزید پیچیدہ ہےکئی طلبہ کو روزانہ 3 سے 5 کلومیٹر تک اسکول پہنچنے کے لیے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ میسر نہیں ہوتی۔ بعض گھروں میں والدین کے ساتھ ساتھ بڑے بھائی بھی روزگار کی تلاش میں شہروں سے باہر ہوتے ہیں۔

متعدد طلبہ کو نہ صرف خود اسکول جانا ہوتا ہے بلکہ چھوٹے بہن بھائیوں کو ساتھ چھوڑنا اور واپس لانا بھی انہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

یہ وہ “زمینی حقیقت” ہے جسے اکثر پالیسیاں نظرانداز کر دیتی ہیں۔ ایسے میں اگر ایک 15 یا 16 سالہ طالب علم مجبوری کے تحت موٹر سائیکل چلاتا ہے تو کیا اسے فوراً مجرم کے طور پر پیش کرنا دانشمندی ہے؟

چالان: ایک مسئلے کا حل یا ایک نیا مسئلہ؟

یہ بات سب جانتے ہیں کہ کم عمر ڈرائیونگ حادثات کا باعث بن سکتی ہے، لیکن کیا چالانوں کا بڑھتا ہوا سلسلہ اس مسئلے کو حل کر پایا ہے؟ غور کیجئے:

  1. چالان گھرانے کے معاشی بوجھ میں اضافہ کرتا ہے

500 سے 2000 روپے تک کے جرمانے ایک کم آمدن گھرانے کے لیے کبھی معمولی بات نہیں۔ یہ وہ پیسہ ہے جس سے گھر کا راشن آ سکتا ہے، فیس جمع ہو سکتی ہے، یا ماہانہ یوٹیلیٹی بل ادا ہو سکتا ہے۔

  1. پولیس اور عوام میں فاصلہ بڑھتا ہے

طلبہ، ان کے والدین اور پولیس کے درمیان اعتماد کی بجائے خوف، نفرت اور بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد ٹوٹے تو معاشرہ کبھی نہیں سنبھلتا۔

  1. قانون صرف سڑک پر چلنے والوں پر سخت ہے، ریاست پر نہیں؟

سب سے اہم سوال یہ کہ ریاست نے ان طلبہ کو محفوظ اور سستا ٹرانسپورٹ فراہم کیا ہے؟
اگر بسیں نہیں، رکشے مہنگے، گاڑیاں کم، تو پھر قانون پر صرف کم عمر بچے ہی کیوں عمل کریں؟
ریاست کی آئینی ذمہ داریاں کون پوری کرے گا؟

قانون ضروری، لیکن یکطرفہ نہیں ، ریاست بھی ذمہ دار ہے

یہ درست ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانا درست نہیں، مگر حل صرف چالان نہیں۔ دنیا کے مہذب معاشرے قانون کی پابندی سزا سے نہیں، سہولت سے کراتے ہیں۔ وہاں پہلے ٹرانسپورٹ دی جاتی ہے، پھر سختی کی جاتی ہے۔

پاکستان میں مسئلہ الٹا ہے:

ٹرانسپورٹ نہیں

اسکول روٹ نہیں

پبلک بسیں نہیں

حفاظتی آگاہی نہیں

لیکن چالان ضرور ہے

یہی وہ تضاد ہے جسے درست کرنا ناگزیر ہے۔ ریاستی اداروں کو قوانین بناتے وقت سماجی حقیقت بھی دیکھنی چاہیے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی نصف آبادی 20 سال سے کم عمر ہے، اور کروڑوں بچے روزانہ سفر کرتے ہیں۔

نئے قومی بیانیے کی ضرورت — بچوں کو سزا نہیں، سہولت ملنی چاہیے

ایک مضبوط قوم اپنے بچوں پر جرمانے نہیں لگاتی، انہیں سہولت دیتی ہے، تربیت دیتی ہے، راستہ دکھاتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ بچے کل کو ذمہ دار شہری بنیں تو ہمیں آج انہیں عزت، آسانی اور تحفظ دینا ہو گا۔

نیا بیانیہ یوں ہونا چاہیے:

ٹریفک پولیس کا کردار صرف چالان نہیں، تعلیم بھی ہو۔
اسکولوں میں ٹریفک آگاہی سیمینارز، ورکشاپس، باقاعدہ “اسکول ٹریفک سیفٹی ویک” کا انعقاد کیا جائے۔

کم عمر بچوں کی مجبوریوں کو سمجھا جائے۔
ایسے طلبہ کو صرف وارننگ، والدین کو نوٹس اور حفاظتی تدابیر پر عمل کی ہدایات کافی ہیں۔

اسکول و کالج روٹس پر خصوصی شٹل سروسز شروع کی جائیں۔
زیادہ فاصلوں پر آنے والے طلبہ کیلئے کم کرایہ بس سروس حکومتی سطح پر بہت ضروری ہے۔

سختی سے پہلے سہولت دیں۔
اگر ٹرانسپورٹ، روٹ اور سستی سفری سہولتیں فراہم کر دی جائیں تو کم عمر ڈرائیونگ خود بخود کم ہو جائے گی۔

قوم کے مستقبل کو خوف نہیں، اعتماد چاہیے

یہ بچے پاکستان کا مستقبل ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جو کل کو سائنسدان، پروفیسر، فوجی، شاعر، انجینئر، سفارتکار، پالیسی ساز بنے گی۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم انہیں کیسا ماحول دینا چاہتے ہیں:

ایسا ماحول جس میں پہلی تربیت چالان ہو؟
یا

ایسا ماحول جس میں پہلی تربیت اعتماد اور سہولت ہو؟

ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا نظام تشکیل دے جس میں کم عمر طلبہ کو:

محفوظ سفر ملے

ٹریفک شعور ملے

آسان اور قابلِ برداشت ٹرانسپورٹ ملے

پولیس سے خوف نہیں، اعتماد ملے

اختتامیہ: چالان مسئلے کا حل نہیں، قومی سوچ کی تبدیلی وقت کی ضرورت ہے

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان محض قانون نافذ نہ کرے بلکہ ایک جامع، انسانی، اور قومی پالیسی مرتب کرے جو کم عمر طلبہ کی مجبوریوں کو بھی سمجھے اور قوم کے مستقبل کو بھی محفوظ کرے۔

چالان ایک وقتی حل ہے، لیکن حقیقی حل وہ ہے جو بچوں کے لیے سہولت، معاشرے کے لیے نظم و ضبط اور ریاست کے لیے اعتماد پیدا کرے۔

ایک مہذب قوم اپنے بچوں کو جرم کے کٹہرے میں نہیں کھڑا کرتی—
انہیں راستہ دکھاتی ہے، سہارا دیتی ہے اور ان کے مستقبل کی حفاظت کرتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں