0

مافیاز کا بڑھتا اثر: شوگر، گندم، پٹرول اور پراپرٹی کے سنگین مسائل

(Publish from Houston Texas USA)

(میاں افتخار احمد)
پاکستان میں مختلف معاشی شعبوں پر مافیاز کا بڑھتا ہوا قبضہ ایک ایسا سنگین بحران بن چکا ہے جس نے ریاستی اداروں کی کمزوری اور حکومتی حکمت عملیوں کی ناکامی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ شوگر، گندم، پٹرول اور پراپرٹی کے طاقتور گروہوں نے نہ صرف ملکی معیشت کو یرغمال بنا لیا ہے بلکہ عوام کی روزمرہ زندگی پر ایسا بوجھ ڈال دیا ہے جس سے نکلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ گروہ سیاست، سرمایہ، بیوروکریسی اور مارکیٹ کی طاقت کو ملا کر ایسے بے رحم نظام کی تشکیل کر چکے ہیں جس میں عام شہری صرف مہنگائی، قلت اور لوٹ مار کا شکار بنتا رہتا ہے۔ شوگر مافیا پاکستان کے سب سے مضبوط اور بااثر گروہوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مافیا گنے کی پیداوار سے لے کر چینی کی مارکیٹ تک ہر سطح پر مکمل اجارہ داری رکھتا ہے۔ ہر چند سال بعد ایک مصنوعی بحران کھڑا کیا جاتا ہے۔ چینی مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہے، سرکاری ذخائر غلط رپورٹ کیے جاتے ہیں، اور چند ہی دنوں میں قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا جاتا ہے کہ اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکل کر مخصوص جیبوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ کسانوں سے گنے کا ریٹ کم رکھا جاتا ہے، ادائیگیاں کئی ہفتوں تک روکی جاتی ہیں، اور بے تحاشا منافع کمانے کے لیے قیمتوں کو اچانک بڑھا دیا جاتا ہے۔ حکومتیں اکثر سیاسی مفادات کے باعث مداخلت کرنے سے ہچکچاتی ہیں کیونکہ شوگر ملز کے مالک زیادہ تر سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے چینی کی قیمت کبھی مستحکم نہیں رہتی اور عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔ گندم مافیا نے ملک کے غذائی تحفظ اور آٹے کی دستیابی کو بدترین بحران میں دھکیل دیا ہے۔ ہر سال گندم کی پیداوار اور اسٹاک کے حوالے سے حکومتی دعوے زمینی حقائق سے بالکل مختلف ثابت ہوتے ہیں کیونکہ مافیا سرکاری سطح پر غلط معلومات پہنچا کر مصنوعی قلت پیدا کرتا ہے۔ سرکاری گوداموں سے گندم غائب کرنا، ذخیرہ اندوزی، فلور ملز پر مصنوعی پابندیاں اور بحران کا شور مچا کر گندم کی قیمت بڑھانا ایک منظم طریقہ کار بن چکا ہے۔ نتیجتاً آٹے کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ معمول بن گیا ہے اور عام آدمی دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان رہتا ہے۔ گندم کی غیر قانونی برآمدات اور درآمدی پالیسیوں میں بدنظمی اس بحران کو مزید سنگین بنا دیتی ہے۔ پٹرول مافیا ملک کی معاشی ریڑھ کی ہڈی یعنی توانائی کے شعبے پر اپنی گرفت کو مسلسل مضبوط کر رہا ہے۔ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا جواز اکثر عالمی قیمتوں کو بنایا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اندرونی سطح پر ذخیرہ اندوزی، مصنوعی قلت، کمپنیوں کی آپس کی ملی بھگت، جعلی بحران اور حکومتی کمزوری وہ عوامل ہیں جو اصل بحران کو جنم دیتے ہیں۔ کئی بار دیکھا گیا کہ پٹرول پمپ بند رکھ کر قلت کا ماحول پیدا کیا گیا تاکہ قیمت بڑھنے کے بعد دوگنا منافع کمایا جا سکے۔ اس مافیا کے اثرات عام صارفین تک محدود نہیں رہتے بلکہ ٹرانسپورٹ سے لے کر زراعت، صنعت اور گھریلو اخراجات تک ہر شعبہ اس کے نتیجے میں مہنگا ہو جاتا ہے، جس کا بوجھ عوام کے کاندھوں پر منتقل ہوتا رہتا ہے۔ پراپرٹی مافیا نے تو پاکستان کے شہری ڈھانچے کو ہی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ بڑے شہروں میں ناجائز ہاؤسنگ سوسائٹیز، جعلی فائلیں، ڈبل بکنگ، سرکاری زمینوں پر قبضہ، اور مصنوعی مہنگائی نے پراپرٹی مارکیٹ کو کرپشن کا سب سے بڑا مرکز بنا دیا ہے۔ پلاٹوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ایسا ہے کہ اب متوسط طبقہ ہی نہیں بلکہ اچھی مالی حالت والے شہری بھی گھر خریدنے کی سکت کھو چکے ہیں۔ جنگلات، زرعی زمینوں اور ماحولیات کو تباہ کر کے سوسائٹیز بنائی جاتی ہیں، جبکہ ریگولیٹری ادارے یا تو خاموش رہتے ہیں یا مافیا کے سہولت کار بن جاتے ہیں۔ اس لوٹ مار کا خمیازہ عوام کو بڑھتے کرایوں، غیر معیاری تعمیرات اور قانون کے فقدان کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ ان تمام مافیاز کی طاقت بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ریاستی اداروں کی کمزوری، کرپٹ نظام، سیاسی سمجھوتے اور احتساب کے غیر منصفانہ طریقے ہیں۔ جب قانون طاقتور کو ہاتھ نہ لگا سکے، جب فیصلے طاقت کے مراکز میں ہوں اور جب عوام کی آواز کمزور کر دی جائے تو ایسے میں مافیا مضبوط اور ریاست کمزور ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ نتیجتاً مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور معاشی عدم استحکام میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام کے اعتماد میں کمی آرہی ہے، لوگ مایوسی کا شکار ہیں اور سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان ملک کے عام شہری کو ہوتا ہے جو پہلے ہی مہنگائی سے نڈھال ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ان طاقتور گروہوں کے خلاف غیر سیاسی، شفاف اور سخت آپریشن شروع کیا جائے۔ قانون کو طاقتور اور کمزور دونوں کے لیے برابر بنایا جائے۔ شوگر اور گندم کے ذخائر کی شفاف نگرانی، پٹرول کمپنیوں کی سخت آڈٹنگ، پراپرٹی شعبے کی مکمل ریگولیشن اور کرپشن میں ملوث سرکاری افسران کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ جب تک ریاست فیصلہ کن اقدامات نہیں کرے گی، یہ مافیاز اپنی جڑیں مزید گہری کرتے رہیں گے اور پاکستان کی معیشت اور عوام کا مستقبل خطرے میں رہے گا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت مصلحتوں کو چھوڑ کر عوامی مفاد کو ترجیح دے تاکہ ملک کو معاشی استحکام، شفافیت اور انصاف کی طرف واپس لایا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں