(میاں افتخار احمد)
فیصل آباد میں این اے 104، این اے 96، پی پی 98، پی پی 115 اور پی پی 116 کے حلقوں میں 2025 کے ضمنی انتخابات نہ صرف مقامی بلکہ صوبائی اور قومی سیاست پر گہرا اثر ڈالنے کا امکان رکھتے ہیں، کل رجسٹرڈ ووٹرز ان پانچ حلقوں میں تقریباً 1,944,468 ہیں، پولنگ اسٹیشنز کی تنظیم بھی ایک کلیدی عنصر ہے کیونکہ ضلع میں عمومی انتخابات کے دوران 3,687 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے، این اے 104 میں 375 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے جن میں مرد، خواتین اور مشترکہ اسٹیشنز شامل تھے، انتخابی مہم اور امیدواروں کی حکمت عملی اس پولنگ اسٹیشن کی تقسیم کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی جائے گی تاکہ ووٹر انگیجمنٹ کو زیادہ مؤثر بنایا جا سکے، ووٹر ڈیموگرافک کی بات کی جائے تو این اے 104 میں 556,351 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں مرد 291,580 اور خواتین 264,771 شامل ہیں، یہی رجحان دوسرے حلقوں میں بھی دکھائی دیتا ہے — پی پی 115 میں 234,724 ووٹرز (مرد 124,215 اور خواتین 110,509) اور پی پی 116 میں 276,687 ووٹرز (مرد 146,034، خواتین 130,653) ہیں، پی پی 98 میں ووٹرز کی تعداد 289,984 ہے جس میں مرد 156,083 اور خواتین 133,901 شامل ہیں، اور این اے 96 میں رجسٹرڈ ووٹرز 586,722 ہیں جن میں مرد 314,106 اور خواتین 272,616 ہیں، یہ خاندانی ووٹر بیس اور جنس کے لحاظ سے تقریبا توازن کا ڈھانچہ واضح کرتا ہے اور امیدواروں کو مرد و خواتین دونوں کو اپنی مہم میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹر شرکت ممکن بنائی جا سکے، سیاسی امیدواروں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو این اے 104 میں مسلم لیگ ن اپنے مضبوط امیدوار پیش کرسکتی ہے جبکہ این اے 96 میں بھی ن لیگ کی جانب سے مقبول امیدوار کے امکان ہیں، پی پی 98، پی پی 115 اور پی پی 116 میں بھی ن لیگ نے امیدوار نامزد کیے ہیں جو مقامی سطح پر مضبوط نیٹ ورک رکھتے ہیں، ان حلقوں میں ماضی کے انتخابی نتیجوں اور سیاسی ماضی کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ن لیگ کو ایک اچھا موقع ہے اگر وہ اپنی مہم کو فعال رکھے اور خواتین اور نوجوان ووٹرز تک پہنچنے میں کامیاب ہو، مگر چیلنجز بھی کم نہیں: سیلاب اور موسمی اثرات، پولنگ اسٹیشن کی استعداد، انتظامی اور سیکیورٹی مسائل، اور انتخابات کے دن شرکت کم ہونے کا خطرہ حقیقتاً موجود ہے، خاص طور پر چونکہ ضمنی انتخاب کا شیڈول مؤخر کرنے کی صورت میں یہ بات حکمت عملی تیار کرنے والی جماعتوں کو سنجیدہ طور پر سوچنے پر مجبور کرتی ہے، انتخابی حکمت عملی کو انتہائی باریک بینی سے ڈیزائن کرنا ہوگا: پولنگ اسٹیشن کی لوکیشنز، سیکیورٹی انتظامات، ووٹر تعلیم، پولنگ ڈے پر امدادی اور نقل و حمل کا نظام، اور مہماتی پیغامات کو مقامی ضروریات کے مطابق ہونا چاہیے، اس طرح کا جامع تجزیہ اور منصوبہ بندی امیدواروں اور جماعتوں کو نہ صرف ووٹر بیس کو منظم کرنے میں مدد دے گی بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ ووٹرز کا اعتماد بحال رہے اور انتخابات شفاف، موثر اور نتیجہ خیز ہوں، این اے 104 میں مسلم لیگ ن کے مضبوط امیدوار بریسٹر راجہ دانیال میدان میں ہیں، جو سابق قیادت سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے ممکنہ مقابلے میں مقامی لیڈر رانا عدنان شامل ہیں اور بعض ذرائع میں بتایا گیا ہے کہ شکیل شاہد جو پہلے پی ٹی آئی سے منسلک تھے اب دستبردار ہو گئے ہیں، این اے 104 میں بجلی کی مہنگائی، صفائی، انفراسٹرکچر اور گلیوں کی حالت جیسے مسائل ووٹروں کی ترجیحات میں شامل ہیں، این اے 96 میں ن لیگ کے بلال بدر چوہدری کو ٹکٹ ملا ہے جو سابق وزیر طلال چوہدری کے بھائی ہیں، ان کے مد مقابل آزاد امیدوار مالک نواب شیر وسیر ہیں، جبکہ پی پی 98 میں آزاد علی تبسم کو ٹکٹ دیا گیا ہے اور حلقے میں ان کی مقبولیت مضبوط ہے، پی پی 115 میں ن لیگ کے میاں طاہر جمیل امیدوار ہیں اور ان کے اہم مدمقابل ممکنہ طور پر ملکی اسغر علی ہیں، پی پی 116 میں ن لیگ نے رانا احمد شہریار خان کو نامزد کیا ہے جو سینٹر رانا ثناءاللہ کے داماد ہیں اور اس حلقے میں ان کا سیاسی نیٹ ورک مضبوط ہے، ان کے مدمقابل خاجہ اسد اعجاز منا اور ملک اسغر علی قیصر ہیں، ووٹر بیس کی تفصیلات کے مطابق خواتین ووٹرز کی تعداد اکثر مردوں کے قریب ہے، جس کا مطلب ہے کہ انتخابی مہمات میں خواتین ووٹ کو شامل کرنا ضروری ہے، نوجوان ووٹرز کی شرکت اور مقامی ترقیاتی مسائل پر زور دینا کامیاب حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے، پولنگ اسٹیشن کی جغرافیائی تقسیم، سیکیورٹی انتظامات، نقل و حمل، ووٹر تعلیم اور مقامی رابطوں کو شامل کرتے ہوئے انتخابات کی تیاری انتہائی اہم ہے، ان حلقوں کا سیاسی تجزیہ بتاتا ہے کہ مسلم لیگ ن اس مرتبہ ایک سنجیدہ موقع پر کھڑی ہے، مضبوط امیدوار، مقامی نیٹ ورک اور کمزور مقابلے کا فائدہ اس کی جانب مائل نظر آتا ہے، مخصوص حلقوں میں پی ایم ایل این کی پوزیشن نسبتاً مضبوط ہے مگر انتخابی حکمت عملی کامیاب کرنے کے لیے ووٹر بیس کا باریک مطالعہ اور متوازن مہم ضروری ہے، خواتین ووٹ، نوجوان ووٹ، اور مقامی ترقیاتی مسائل پر توجہ دینے سے ن لیگ کو اپنی فتح کو یقینی بنانے کا بڑا موقع ہے، آزاد امیدواران اور مقامی چیلنجرز کو نظرانداز نہ کرنا چاہیے، خاص طور پر ایسے امیدوار جن کی مقبولیت ہو یا وہ مخصوص ذیلی گروپوں تک پہنچ رکھتے ہوں، ان پانچ حلقے 2025 کے ضمنی انتخابات میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے نتائج مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر براہ راست اثر ڈالیں گے، انتخابی حکمت عملی اور ووٹر انگیجمنٹ کے مؤثر نفاذ سے امیدوار نہ صرف اپنی فتح کو یقینی بنا سکتے ہیں بلکہ انتخابات کے عمل کو شفاف اور نتیجہ خیز بنا سکتے ہیں۔
0
