0

ستائیسویں آئینی ترمیم، ججز کے استعفے، عدلیہ میں ممکنہ بحران اور پاکستان کے آئینی مستقبل کے خطرات

(میاں افتخار احمد)

پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ ہمیشہ طاقت کے مختلف مراکز کے بیچ کشمکش کا مرکز رہی ہے، مگر حالیہ چند ہفتوں میں جس تیزی اور شدت کے ساتھ عدالتی بحران نے سر اٹھایا ہے، وہ ملکی سیاست اور جمہوری تسلسل کے لیے ایک نئے محاذ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ستائیسویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری، سپریم کورٹ کے دو معزز ججز کے اچانک استعفے، ایک اور سینئر جج جسٹس صلاح الدین کی جانب سے تیسرا احتجاجی خط، اور ہائیکورٹس میں ممکنہ استعفوں کی افواہوں نے ملکی ادارہ جاتی ڈھانچے کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف عدلیہ کے اندر ایک نئی دراڑ کو نمایاں کیا ہے بلکہ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کا بحران اب محض سیاسی نہیں رہا، بلکہ ریاستی اداروں کے درمیان بے اعتمادی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔
ستائیسویں ترمیم کو حکومت نے عدالتی اصلاحات کے عنوان سے پیش کیا، مگر اپوزیشن اور عدلیہ کے اندر ایک بڑے دھڑے نے اسے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت اور ججز پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا۔ ترمیم کی منظوری کے بعد سب سے پہلا دھچکا سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز کے استعفوں کی صورت میں سامنے آیا۔ ان ججز نے اپنے استعفوں میں جس ماحول، دباؤ اور ناانصافی کا ذکر کیا، اس نے یہ ثابت کر دیا کہ معاملہ محض آئینی نہیں بلکہ ادارہ جاتی طاقت کے توازن کی کشمکش ہے۔ ان استعفوں کے بعد یہ امکان بھی اب شدت سے زیر بحث ہے کہ ہائیکورٹس کے کچھ سینیئر ججز بھی اسی دباؤ، بے اعتمادی اور نظام پر عدم بھروسے کے باعث اپنے عہدوں سے الگ ہو سکتے ہیں۔ اس سے عدلیہ میں خلا پیدا ہوگا، مقدمات کے فیصلوں میں مزید تاخیر ہوگی اور بالآخر ملک میں انصاف کا پورا ڈھانچہ متاثر ہو سکتا ہے۔
کل ہونے والا فل کورٹ اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا، کیونکہ اس اجلاس میں عدلیہ کے مستقبل کی سمت کا فیصلہ ممکن ہے۔ فل کورٹ اجلاس کا بنیادی مقصد صورتحال کا جائزہ لینا، ادارہ جاتی دباؤ اور مداخلت کے خطرات کا تجزیہ کرنا اور آئندہ کی حکمتِ عملی طے کرنا ہوگا۔ ماضی میں ایسے اجلاس اکثر رسمی نوعیت کے سمجھے جاتے تھے، مگر موجودہ بحران کی شدت نے اس اجلاس کو غیر معمولی بنا دیا ہے۔ ممکن ہے کہ ججز اپنی اجتماعی پوزیشن واضح کریں، ممکن ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ ترمیم کے خلاف متفقہ عدالتی مؤقف اختیار کرنے کا اعلان کریں، یا پھر ایک ایسی کمیٹی تشکیل دیں جو ججز کے خلاف کیے جانے والے اقدامات، دباؤ یا مبینہ مداخلت کی تحقیقات کرے۔ کچھ ماہرین کے مطابق اگر صورتحال مزید خراب ہوتی ہے تو سپریم کورٹ ازخود نوٹس لینے یا معاملے کو آئینی تشریح کے لیے کسی بڑے بنچ کے سامنے لانے کا فیصلہ بھی کر سکتی ہے۔
اسی دوران جسٹس صلاح الدین کی جانب سے لکھا گیا تیسرا خط سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ خط نہ صرف عدالتی ماحول میں بگاڑ کا ثبوت ہے بلکہ اس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ عدلیہ کے اندر اختلافات گہرے ہو چکے ہیں۔ جسٹس صلاح الدین نے اپنے خط میں جن نکات کی جانب نشاندہی کی ہے، وہ یہ بتاتے ہیں کہ عدالتی آزادی کا سوال اب محض نظریاتی بحث نہیں بلکہ ایک عملی بحران میں بدل چکا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ عدلیہ کو سیاسی یا غیر سیاسی قوتوں کے دباؤ میں نہیں آنا چاہیے، اور اگر ایسا ہونے لگے تو اس کے خلاف کھڑے ہونا ججز کی آئینی ذمہ داری ہے۔ یہ خط اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ مستقبل میں جسٹس صلاح الدین کسی بھی غیر آئینی اقدام کے خلاف سب سے مضبوط قانون دان آواز کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔ ان کا کردار ممکن ہے آئینی مقدمات میں مرکزی حیثیت اختیار کر لے، یا وہ عدالتی دباؤ کے معاملات پر ایک سخت قانونی مؤقف کے ساتھ سامنے آ کر خود کو عدالتی آزادی کی علامت کے طور پر پیش کریں۔
ریٹائر ہونے والے یا استعفیٰ دینے والے ججز کے مستقبل کے حوالے سے بھی اہم سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ریٹائر ہونے والے ججز عموماً وکالت، آرbitration، بین الاقوامی تنظیموں، انسانی حقوق کے اداروں، ماہرِ قانون کی حیثیت سے حکومتی مشاورت، لا کمیشن، یا یونیورسٹیوں میں تدریس کے شعبے کا رخ کرتے ہیں۔ مگر موجودہ ماحول میں استعفیٰ دینے والے ججز اپنی پوزیشن کو آئینی جدوجہد کا حصہ بنانے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے وہ کھل کر عدلیہ پر دباؤ کی نشاندہی کریں، عوامی مکالمے کا حصہ بنیں یا ملکی اور غیر ملکی فورمز پر عدالتی آزادی کے دفاع میں سرگرم ہوں۔ ماضی میں بھی ایسے کئی ججز موجود رہے ہیں جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد آئینی جدوجہد کو بطور مشن جاری رکھا، اور موجودہ حالات میں بھی یہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔

اگر ہائیکورٹس میں بھی استعفوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ پورا بحران ایک نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ پنجاب، سندھ، پشاور اور بلوچستان ہائیکورٹ میں زیر التوا مقدمات لاکھوں میں ہیں۔ ججز کے استعفے ان مقدمات کو مزید تاخیر کا شکار کریں گے، عوامی عدم اطمینان بڑھے گا، اور عدلیہ پر پہلے سے موجود دباؤ کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔ مزید برآں، ججز کی تقرریاں آئینی طریقۂ کار کے مطابق جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوتی ہیں، مگر اگر دونوں اداروں میں سیاسی یا ادارہ جاتی کشیدگی برقرار رہی تو نئے ججز کی تقرریاں بھی تنازعات میں گھِر جائیں گی، جس سے آئینی بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں عدلیہ کا مستقبل ہمیشہ سیاسی تنازعات سے جڑا رہا ہے۔ ماضی میں لیگل فریم ورک آرڈر، 58 ٹو بی، پروویژنل کانسٹی ٹیوشن آرڈر، ایمرجنسی، ججز کی جبری چھٹی، بحالی تحریک، اور مختلف آئینی ترامیم نے عدالتی ڈھانچے کو مسلسل متنازع رکھا۔ مگر موجودہ بحران کی شدت اس لیے زیادہ ہے کہ اس بار اختلافات عدلیہ کے اندر سے اٹھ رہے ہیں۔ ججز کے درمیان بے اعتمادی، خط و کتابت، بیانات اور استعفے اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ محض آئینی ترمیم کا مسئلہ نہیں بلکہ ادارے کی ساختیاتی بقا کا سوال بن چکا ہے۔ اگر یہ دراڑ مزید گہری ہوتی ہے تو آنے والے برسوں میں پاکستان کی عدالتی تاریخ ایک نئے باب میں داخل ہو سکتی ہے، جس کے اثرات سیاست، انتظامیہ، قانون سازی اور عوامی اعتماد تک پھیل جائیں گے۔
فل کورٹ اجلاس میں اگر ججز نے متفقہ فیصلہ کر کے تمام اختلافات کو کم سے کم کر دیا تو یہ عدلیہ کے لیے ایک نیا آغاز ہو سکتا ہے، مگر اگر اختلافات مزید کھل کر سامنے آئے تو یہ پاکستان کے آئینی نظام کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ ستائیسویں ترمیم، استعفے، خط، دباؤ، بے اعتمادی اور ادارہ جاتی کشمکش کے اس ماحول میں ایک ہی بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی عدلیہ ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ یہ موڑ یا تو عدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنا سکتا ہے یا اسے اندرونی انتشار میں دھکیل سکتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا ریاستی ادارے آئین کے اندر رہ کر اپنے کردار تک محدود رہیں گے یا مفادات اور طاقت کی کشمکش ملک کو ایک اور بحران میں دھکیل دے گی۔ عوام، میڈیا، وکلا برادری، سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے سب اس صورتحال کے فریق ہیں، اور ان سب کی ذمہ داری ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو سیاست سے بالاتر رکھ کر ایک مضبوط آئینی ڈھانچے کی طرف بڑھیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو آنے والے سالوں میں پاکستان کا عدالتی مستقبل مزید غیر یقینی اور تنازعات کا شکار ہو سکتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں